چل رہی ہے بڑے انداز سے آہستہ خرام
لگ رہا ہے ترے کوچے سے صبا آئی ہے
یوں مہک اُٹھا ہے گھر کا مرے گوشہ گوشہ
جیسے اُٹھ کر ترے پہلو سے بہار آئی ہے
پھول چن کر ترے پہلو سے ابھی لائی ہے
کس نے دیکھا ہے کہ تارے بھی چمک اُٹھے ہیں
چاند بھی جیسے سرِ بام اُتر آیا ہے
ایک منظر جو تہہِ خواب تھا آسودہ کہیں
اب حقیقت کی طرح مجھ کو نظر آیا ہے
خواب در خواب پسِ عکس جو منظر ابھرے
لاکھ چاہوں بھی تو اب آنکھ نہیں کھل سکتی
Related posts
-
مجید امجد ۔۔۔ التماس
التماس مری آنکھ میں رتجگوں کی تھکاوٹ مری منتظر راہ پیما نگاہیں مرے شہرِ دل کی... -
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ صور اسرافیل
اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک... -
ڈاکٹر مظفر حنفی ۔۔۔ دوسری جلاوطنی
جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا، اس کو چکھنے کی خاطر، میں جنت کو...